Monday, August 13, 2012

’’ اس بار کی ہماری جدوجہد ۔ ہماری آزادی کی ہے ‘‘ شیخ مجیب الرحمن

تحقیق و ترجمہ جوان بلوچ
مضمون میں شامل تقریر ، شیخ مجیب الرحمن کی مشہور تقریر
(STRUGGLE THIS TIME IS THE STRGGLE FOR INDEPENDENCE) کا ترجمہ ہے جبکہ مقرر کے متعلق معلومات مختلف اقتباسات و آرٹیکلز سے یکجا کرتے ترجمہ کیا گیا ہے تاکہ قارئین کو نہ صرف اس معروف تقریر سے شناسائی کا موقع فراہم کیا جائے بلکہ ان وقتوں کے حالات وبنگلہ دیش کی تحریک آزادی میں شیخ مجیب کے کردار سے بھی آگائی کا موقع ملے ۔
’’ اس بار کی ہماری جدوجہد ۔ ہماری آزادی کی ہے ‘‘
تعارف : جیسا کہ بیان کیاجاچکا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن ، بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کے اہم رہنما اور بعد میں آزاد بنگلہ دیش یعنی ’’ عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش ‘‘ کے پہلے اعزازی وزیر اعظم بنے ۔ انہوں نے اپنی یہ تقریر 7مارچ 1971ء میں ڈھاکہ شہر کے ریس کورس میدان میں ایک عوامی اجتماع کو مخاطب کرتے ہوئے کی ۔
شیخ مجیب الرحمن جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے
’’ آج میں یہاں کھلے دل کے ساتھ آپ سے ملنے محض اس لیے آیا ہوں کہ آپ کے سامنے تمام چیزیں واضح کردی جائیں جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں اور خوب سمجھتے ہیں کہ ہماری تمام تر کوششوں کے باوجود بھی آج ڈھاکہ ، چٹاگونگ ، کھلنا ، راجیشیائی اور رنگ پور کی گلیاں ہمارے بھائیوں کے خون سے رنگ دی گئی ہیں اگر آج بنگلہ دیش کے عوام آزادی چاہتے ہیں اگر وہ جینا چاہتے ہیں یا اپنے حقوق کا اختیار چاہتے ہیں تو اُن کے اس مطالبے میں کیا برائی ہے ؟ یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ انتخابات میں بنگلہ دیش کے عوام نے مجھے اور عوامی لیگ کو ووٹ دیا
اور ہم اس امید میں تھے کہ ہم اسمبلی میں بیٹھتے ایک ایسا آئین تشکیل دیں گے جو ہمارے لوگوں کو معاشی ، سیاسی و ثقافتی آزادی دیتا اُنہیں آسودہ رکھ سکے مگر آج میں یہ معذرت سے کہتا ہوں کہ 23سالوں کی ہماری اس ملک میں تاریخ محض ہمارے لوگوں کے مرنے کی چیخ و پکار سے زیادہ کچھ نہیں اور یہی ہم قابل رحم لوگوں کی قتل وغارت اور ظلم سے کچلے گئے خستہ حال لوگوں کی داستان ہے ۔ بنگال کی تاریخ یہاں بسے لوگوں کے خون سے دیواروں پر رنگ دی گئی ہے ہم نے 1952ء میں خون بہایا اور انتخابات جیتنے کے باوجود بھی ہم 1954ء تک خود کو اقتدار میں نہ لا پائے 1958ء میں ایوب خان نے مارشل لاء لگاتے ہمیں 10سالوں کیلئے مزید غلام رکھا جبکہ 1966ء میں 6نکاتی پروگرام لایا گیا اور محض اُسے نافذ و عملدرآمد کرنے کے سبب ہمارے بہت سے بھائیوں کو جان سے مارا گیا جب ایوب خان ہماری عوامی طاقت کا سامنا کرتے اُکتا گئے تو یحییٰ خان کو سامنے لایا گیا اُس نے اقتدار کی منتقلی کا ہمیں بھروسہ دلایا اور آئین سازی کی حامی بھری اور ہم نے اُس پر بھروسہ کیا ۔ مگر بعد میں کیا ہوا یہ آج سب پر عیاں ہے انتخابات ہوئے کہ جس کے نتائج پہلے سے ہی واضح تھے میں نے صدر یحییٰ خان سے بحیثیت اکثریتی پارٹی کے قائد نہ صرف بنگلہ دیش کے اکثریتی بلکہ پورے پاکستان کی اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے 15فروری کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کی درخواست کی مگر انہوں نے میری ایک نہ سُنی اور وہ بھٹو کی سنتے رہے کہ جنہوں نے صدر کو مارچ کے پہلے ہفتے اجلاس طلب کرنے کی درخواست کی تھی ۔ میں نے جواباًیہی کہا ’’ حالانکہ اکثریت میں ہم ہیں مگر پھر بھی آپ جیسا کہے ہمیں قبول ہے اور پارلیمنٹ میں ہماری اکثریت ہونے کے باوجود بھی ہم کسی ایک تنہا ممبر کی رائے کا بھی احترام کریں گے اس کے بعد بھٹو ڈھاکہ آئے میں نے اُن سے بات چیت کی انہوں نے کہاکہ گفت و شنید کے دروازے ابھی تک بند نہیں ہوئے اور بات آگے بڑھ سکتی ہے مغربی پاکستان سے اور بھی پارلیمانی
لندن : ھفتہ 08 جنوری 1972 کو شیخ مجیب الرحمن کلگیری ھوٹل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے
جماعتوں کے مختلف لیڈران آئے ہوئے تھے ہم نے اُن سے بھی بات چیت کی ہمارا مقصد آئین کی تشکیل کے مسئلے پر گفت و شنید کرنا تھا لیکن بھٹو کہنے لگے کہ اسمبلی اب مقتل گاہ میں تبدیل ہوچکی ہے اور مغربی پاکستان کے ممبران کو بھی یہاں آنا چاہئے اس نے دھمکی دی کہ وہ اسمبلی توڑ دے گا اگر کسی نے مغربی پاکستان سے اسمبلی میں جانے کی کوششیں کی اس بابت وہ پشاور سے کراچی تک تحریک چلائے گا کہ جس میں کسی ایک ادنا دوکان کو بھی کھلنے کی اجازت نہیں ہوگی مگر میں نے کہاکہ پہلے اسمبلی بیٹھنے دو لیکن نہ جانے کیوں بعد میں اسمبلی کا سیشن یکم مارچ منتقل کردیا گیا اس کے بعد جب یحییٰ خان نے بحیثیت صدر اسمبلی کو طلب کیا تو میں نے اسمبلی میں جانے کا فیصلہ کیا مگر بھٹو نے کہاکہ وہ نہیں جانے گا کیونکہ اسمبلی کے 35 ارکان مغربی پاکستان سے آئے ہیں مگر اچانک اسمبلی کو ملتوی کیا گیا اور سارا کا سارا الزام بنگلہ دیش کے لوگوں خصوصاً مجھ پر لگایا گیا اس پر بنگلہ دیش کی عوام نے احتجاجاً اپنی صدا بلندی کی مگر میں نے لوگوں کو پُرامن رہتے محض صورتحال کا جائزہ لیتے مشاہدہ کرنے کا کہا اور بعد میں جب صورتحال ابتر ہوئی تو میں نے ہی انہیں اپنے کارخانوں و ملوں کو احتجاجاً بند رکھنے کو کہا اور لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا اور پھر بعد میں وہ خود ہی اس مسئلے کے حل کیلئے تحریک چلاتے سڑکوں پر نکل آئے مگر ہم نے اس کے بعدلے کیا پایا ؟ ہمارے اس پُرامن احتجاج کے نتیجے میں بنگلہ دیش کے نہتے و غیر مسلح پر اسلحے کا بے تحاشہ استعمال کیا گیا وہ اسلحہ جو ہمارے پیسوں سے ہماری حفاظت کیلئے اور اس ملک کو بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ رکھنے کیلئے خریدا گیا آج اُسی اسلحے سے ہمارے غریب لوگوں کا قتل عام کیا جارہا ہے ہم پاکستان میں اکثریت میں ہے مگر جب کبھی ہم بنگالی برسرے اقتدار آنا چاہتے ہیں اور اپنی منزل و مرضی کے خود مالک ہونا چاہتے ہیں وہ کسی حملہ آور کی صورت ہم پر اسی طرح جھپٹتے ہیں یحییٰ خان نے مجھ سے کہاکہ میں نے 10مارچ کو گول میز کانفرنس کا انعقاد کیا ہے میری جب اُن سے فون پر بات ہوئی تو میں نے کہا’’ آپ ملک کے صدر ہے برائے کرم ڈھاکہ آخر خود دیکھیں ذرا کہ کیسے میرے غریب لوگوں کا قتل عام کیاجارہا ہے کس طرح میری ماؤں کی کھوک اُجھاڑی جارہی ہے برائے کرم آکر دیکھیں پہلے اور بعد میں کچھ طے کریں ‘‘ البتہ میں نے اُنہیں صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ’’ اب کوئی گول میز کانفرنس یا اُس جیسی چیز نہیں ہوگی اور کیسی گول میز کانفرنس ؟ میں اس ٹیبل پر بیٹھ بھی کیسے سکتا ہوں کہ جہاں وہ لوگ بیٹھے ہوں کہ جنہوں نے ہمارے لوگوں کا خون بہایا اور جن کے ہاتھ میرے لوگوں کے خون سے رنگے ہوں ‘‘
دہلی : شیخ مجیب الرحمن اندرا گاندھی سے ملاقات کرتے ھوئے
مگر پانچ گھنٹوں کی طویل خفیہ گفت و شنید کے بعد یحییٰ خان نے سارا الزام ہم بنگالیوں اور خصوصاً مجھ پر عائد کیا میں نے بھی اُنہیں واضح کردیا ہے کہ اب ہماری جدوجہد ہماری آزادی کی ہے صدر نے اسمبلی کا اجلاس 25مارچ کو بلایا ہے مگر ہمارے خون کے دھبے اب تک خشک نہیں ہوئے اس لئے میں یہ بات سب پر واضح کردوں کہ ’’ میں یعنی شیخ مجیب الرحمن اپنے شہداؤں کے خون پر پاؤں رکھتا کسی گول میز کانفرنس میں شمولیت کرنے ہر گز نہیں جاؤ نگا ‘‘ ۔
اب کسی بھی اسمبلی میں جانے سے قبل ہمارے ان مطالبات کو ہر حال میں تسلیم کرنا پڑے گا ہمارا پہلا مطالبہ مارشل لاء کا خاتمہ دوسرا فوج کی اپنی بیرکوں میں واپسی اور تیسرا منتخب نمائندوں کو اقتدار کی منتقلی اور چوتھا سرکاری و باضابطہ طور سے حالیہ قتل و غارت گری کی انکوائری پر مشروط ہے ان تمام مطالبات کے تسلیم کیے جانے کے بعد ہی ہم سوچیں گے کہ ہمیں اسمبلی میں بیٹھنا چاہیے یا نہیں ؟ کیونکہ اسمبلی میں جانے کا فیصلہ ان مطالبات کی منظوری سے قبل طے کیاجانا ہمارے اختیار میں ہی نہیں ۔ ہمارے لوگوں نے ہمیں اس کا اب تک اختیار نہیں دے رکھا کہ ہم ایسا کوئی فیصلہ کریں جو اُن کی اُمنگوں کے خلاف ہو۔
میرے بھائیوں ،کیا آپ لوگوں کو مجھ پہ بھروسہ ہے ؟ میرے من میں نہ تو وزیراعظم بننے کی خواہش ہے اور نہ ہی میں ایسا چاہتا ہوں ۔ میں بس اپنے لوگوں کے حقوق کا طالب ہوں ۔ وہ نہ تو مجھے وزیر اعظم کا عہدہ دیتے ہیں اور نہ ہی مجھے پھانسی دیتے ہوئے موت کاخوف دلاکر خریدا جا سکتا ہے ۔کیا آپ مجھے اپنے خون بہہ جانے کی سازش سے آزاد سمجھتے ہیں یا اُس کا حصہ ؟ میں وعدہ کرتا ہوں اس ریس کو رس میدان میں ،آپ سب کے سامنے ،کہ میں اس خون کے قرض بدلہ خون سے دینے کوتیار ہوں ۔آپ کووہ دن یا د ہے،میں پہلے کی طرح آج بھی اپنی جان قربان کرنے کوتیا ر ہوں ۔
میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ آج سے تمام لوئر کورٹ (Lower Court ) ،ہائی کورٹ سپریم کورٹ ،دفاتر اور تما م تعلیمی ادارے غیر معینہ مدت تک بند رکھے جائیں گے ۔غریب لوگوں کو اس مصیبت سے جھوجھنا نہ پڑے اس لئے رکشا، ہتھ گاڑیاں ،ٹرین اور لانچیں چلتی رہیں گی ۔صرف سیکٹریٹرٹ ،سپریم ہائی کورٹ ،ہائی کورٹ ججز کورٹ ،سرکاری ،نیم سرکاری دفاتر ،واپڈا وغیرہ بند رہیں گی ۔
آپ اپنی تنخوائیں لینے جایا کیجئے اور اگر تنخواہ ادانہ ہو یا کئی سے کوئی ایک بھی گولی چلے اور ہم میں سے کوئی مارا جائے تو میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ بھی اپنے ہر گھر کو ایک قلعے کی طرح بنا ڈالیں آپ کے پاس جو جو کچھ بھی ہو ،آپ اُسی کے ساتھ دشمن کا سامنا کیجئے ۔آپ ان کے تمام راستوں کو بند کر دیجئے اور جہا ں کئی میں آپکی رہنمائی کرنے کو حاضر نہ ہوا تو وہاں آپ خود اپنی اور دوسروں کی رہنما ئی کرتے اس تحریک کو رواں دواں رکھےئے ۔
میں ان حالات میں بھی فوجیوں سے کہتا ہوں کہ آپ ہمارے بھائی ہیں اوراگر آپ اپنے بیرکوں میں لوٹ گئے تو یہاں بھی آپکو کوئی ایک لفظ نہیں کہے گا مگر آپ نے ہم پر مزید گولیاں برسائی تو حالات مزید بگڑجائیں گے ۔آپ 70ملین لوگوں کو ا ب خاموش نہیں کراسکتے ،اور یاد رہے کہ ایک بار یہ سیکھ چکے ہیں کہ موت کا سامنا کیسے کیا جائے لہذا اب ہمیں کوئی کچل نہیں سکتا ۔
25 مارچ 1971 کو پاکستان آرمی کی جانب سے شروع کیا گیا “آپریشن سرچ لائٹ” جس کے نتیجہ میں ھزاروں بنگالیوں کو شہید کیاگیا۔
عوامی لیگ نے اس مد میں ایک ریلیف کمیٹی بھی تشکیل دی ہے جو شہداؤں کے خاندان وزخمی لوگوں کی مدد کرے گی ۔ہم سچے دل سے ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں اسیلئے سب سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ ذیادہ سے زیادہ مالی مدد کرتے اور اس ریلیف مہم کاحصہ بنتے انکی مدد کو یقینی بنائیں۔میں مل مالکا ن سے گذارش کرتا ہوں کہ وہ اپنے ان ورکر وں کو انکی پوری تنخوائیں دیں جو حالیہ غیر یقینی صورت میں ہفتے سے ذیادہ اپنے کا م پہ حاضر نہ ہوسکے ۔
میں سرکاری ملازمین سے گذارش کرتا ہوں کہ وہ ان احکامات کے فرمانبردار رہے جو آج میں کہی ۔ا س بات کو ہر حال میں یقینی بنایا جائے کہ دفاتر میں کوئی بھی افسروں حاضر نہ رہے ۔اب ٹیکسوں کی وصولی اس وقت کیلئے ملتوی رہے گی کہ جب تک ہم اپنی یہ سرزمین آزاد نہ کرالیں لیکن ایک اور بات بھی میں آپ سب سے کہنا چاہونگا اور وہ یہ کہ اب تک اس ملک کو مکمل طور سے تباہی کے کھگار پہ لانے کا وقت نہیں آن پہنچا ۔اگر دوستانہ طریقے سے ہمارے مسائل کو حل کرتے ہمارے ساتھ تصفیہ کیا گیا تو ممکن ہے کہ ہم میں ان کے ساتھ بھائیوں کی طرح دوبارہ رہنے کی امید پیدا ہو جائے ۔
میں آپ سب کو محتاط وچوکنا رہنے کی تلقین بھی کرتا ہوں ۔آپ سب کو اب مزید امحتاط وچوکنا رہنے کی ضرورت ہے کیو نکہ ہمارا دشمن ہمارے بیچ گھس کرہم میں بدنظمی پیدا کرسکتا ہے ۔وہ ہمیں دھوکہ دہی کا شکار کرتے ہم میں تفرقے بھی پیدا کر سکتا ہے ۔وہ بڑے منظم انداز میں لوٹ مار ،قتل وغارت گری وہ اس جیسی دوسری سرگرمیا ں کرسکتا ہے۔ یہ 75 ملین لوگ کہ جن میں ہندو ،مسلم یا بنگالی یا غیر بنگالی ہوں ۔ یہ سب ہمارے بھائی ہیں اور یہ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم ایک دوسرے کی حفاظت کریں ۔
اگر ریڈیو آپکی باتوں کو نشر نہ کر ے ،تو کوئی بنگالی ریڈیو اسٹیشن نہ جائے ۔اگرٹی وی ہماری خبروں کو نشر نہ کرے تو کوئی بنگالی اٹھ کھڑا ہوتے ٹی وی اسٹیشن نہ جائے ۔بینک بھی محض 2 گھنٹوں کیلئے کھلے رہیں گے تا کہ لوگ اپنی تنخوائیں نکال سکیں مگر مشرقی بنگال سے مغربی پاکستان ذرمبادلہ کا قطعی کوئی تبادلہ نہ ہوگا ۔ٹیلی فون وٹیلی گرام بھی محض مشرقی بنگال کے سرحدوں کے اندر رہتے اپنے فرائض سرانجام دیں گے اور خبر یں بھی محض غیر ملکی وبیرونی ممالک نشر کیں جاتی رہیں گی ۔
میں آپ لوگوں سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ بنگال کے ہر گاؤں ،وارڈ ،یونین وغیرہ میں عوامی لیگ کی قائدین کے زیرسرپرستی ایکشن کمیٹیا ں تشکیل دے،جو کچھ آپ کے وصں میں ہو اورجو کچھ آپکی بساط کے مطابق ہو اسی مناسبت سے خود کو تیا ر رکھیں ۔یا د رہے کہ ہم نے ایک باراپنا خون بہایا ہے اور اب ہم دوبارہ ایسا کرنے سے کبھی نہیں ہچکچائیں گے اور ہم ایسا کرتے رہیں گے تب تک کہ جب ہم اس وطن کے لوگوں کو آزادی نہ دلادیں ۔انشااللہ
اب کہ بار ہماری جدوجہد ۔ہماری آزادی کی ہے
اب کہ بار ہماری جدوجہد ۔ہماری خودمختاری کی ہے
جئے بنگال

No comments:

Post a Comment