Saturday, August 4, 2012

اردو زبان زریعہ تعلیم کیوں

- سید طالوت اختر
کسی بھی قوم کی ترقی میں زبان کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ تہذیب، تمدن، روایات، رسم و رواج، ثقافت اور مذہب کی اگلی نسل کو منتقلی کا واحد ذریعہ زبان ہے۔ کوئی شخص جتنے اچھے طریقے سے کوئی بات اپنی مادری زبان میں کہہ اور سمجھ سکتا ہے وہ کسی دوسری زبان میں نہیں سمجھ سکتا۔ پرائی زبان میں وہ اپنی یادداشت اور بولنے کی صلاحیت کا پچیس فیصد ہی استعمال کرپاتا ہے، اس طرح وہ پچھتر فیصد صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ اردو زبان عربی، فارسی اور ترکی زبانوں سے مل کر بنی ہے، لیکن اردو کو آسان بنانے کے نام پر اردو زبان میں انگریزی کے الفاظ کا استعمال شروع کردیا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انگریزی کے الفاظ کا ترجمہ کیا جاتا یا عربی اور فارسی زبانوں سے الفاظ لیے جاتے، لیکن انگریزی زبان کے الفاظ کے کثرت سے استعمال نے اردو زبان کی خوبصورتی کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ کسی نے اردو زبان کی خوبصورتی پر کیا خوب کہا: وہ عطرداں سا لہجہ میرے بزرگوں کا خوشبو رچی بسی ہے اردو زبان کی اس خوبصورت زبان کے ساتھ آج جو کچھ کیا جارہا ہے وہ حیرت و شرمندگی کا باعث ہے۔ انگریزی زبان اور ثقافت سے مرعوبیت کا یہ عالم ہے کہ آج کے والدین اردو سکھانے کے بجائے انگریزی سکھانا اپنے بچے کے مستقبل کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ بعض لوگ تو اتنے مرعوب ہیں کہ اگر ان کا بچہ کسی مہمان کے سامنے اردو کا کوئی لفظ بول دے تو اسے سب کے سامنے ڈانٹ دیتے ہیں اور بچوں سے روزمرہ کی گفتگو بھی انگریزی زبان میں کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر ہم میڈیا کی طرف دیکھتے ہیں تو وہاں اور برا حال ہے۔ ٹی وی اسکرین پر پورے کے پورے جملے انگریزی میں بولے جارہے ہیں۔ ریڈیو پر تو پوری گفتگو انگریزی میں ہورہی ہے اور اخبارات کا حال یہ ہے کہ اردو کے الفاظ کی موجودگی کے باوجود انگریزی کے الفاظ کا استعمال کثرت سے کیا جارہا ہے۔ اس پر بھی دعویٰ ہے کہ وہ زبان و ثقافت کو فروغ دے رہے ہیں۔ اگر ہم مسلمانوں کی تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ شروع کی صدیاں مسلمانوں میں شعر و شاعری اور فقہی علوم کی ترقی میں گزریں لیکن اس کے بعد انہوں نے بڑے پیمانے پر دنیا بھر کی کتابوں کا ترجمہ عربی زبان میں کیا اور ساری دنیا کا علم گھول کر پی گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چار صدیوں تک کوئی ان علوم میں ان کا مقابلہ کرنے والا نہیں تھا۔ پھر الجبرا ہو کہ کیمسٹری، فزکس ہو یا ریاضی، نفسیات ہو کہ علم فلکیات… آج بھی ان علوم میں بنیادی کام مسلمان سائنسدانوںکا مانا جاتا ہے۔ آج بھی بوعلی سینا کا تحقیقی کام دنیا کے کام آرہا ہے۔ اسی طرح اگر ہم انگریزوں کو دیکھیں تو انہوں نے بھی حصولِ علم کے لیے اپنی زبان کا انتخاب کیا اور دنیا بھر کے علوم کا ترجمہ انگریزی زبان میں کیا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ جرمن، فرنچ، عربی اور دیگر زبانوں میں لکھی گئی کتابیں ان کی اپنی زبان میں دستیاب ہوں نہ ہوں انگریزی زبان میں مل جائیں گی۔ وہ انہی علوم کی بنیاد پر پچھلی تین چار صدیوں سے دنیا پر حکومت کررہا ہے اور کوئی ان علوم میں اس کا مقابلہ کرنے والا موجود نہیںہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم غیروں کی زبان میں بول سکتے ہیں، سن سکتے ہیں لیکن سوچ نہیں سکتے۔ اس کی بڑی مثال دورِ جدید میں سنگاپور کی ہے۔ ان کو بھی پڑھایا گیا کہ انگریزی کے بغیر ترقی کا کوئی تصور موجود نہیں، اور انہوں نے انگریزی پڑھ کر ہر شعبہ میں ترقی بھی کی، لیکن انہیں اس وقت حیرت ہوئی جب ان کو پتا چلا کہ ان کا ہر شعبہ ترقی کررہا ہے لیکن تحقیق کے شعبہ میں کوئی کام نہیں ہورہا۔ انہوں نے پتا لگایا کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ سامنے آئی کہ مادری زبان کے علاوہ غیروں کی زبان میں تحقیق ناممکنات میں سے ہے۔ ان کو جلد احساس ہوگیا کہ اس طرح ان کی یہ ترقی وقتی ثابت ہوسکتی ہے۔ سیدھی بات یہ ہے کہ آپ جب بچوں کو انگریزی زبان میں پڑھاتے ہیں تو انگریزی ثقافت وتہذیب کے بارے میں پڑھاتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کے پاس کوئی تصور نہیں ہوتا۔ مثلاً کرسمس کے بارے میں پڑھتے ہیں لیکن کبھی کرسمس دیکھا نہیں ہوتا۔ سانتاکلاز کے بارے میں پڑھتے ہیں، لیکن نہیں معلوم کہ کیا ہے۔ اس طرح کی کئی باتیں ہیں جو پڑھائی جارہی ہیں لیکن معلوم نہیں کیا ہیں۔ جب کہ وہ جس معاشرے کا حصہ ہیں اس کے بارے میں کچھ پتا نہیں۔ آج پاکستان کے پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت کو پاکستان اور مسلمانوں کے ہیروز کے نام تک پتا نہیں۔ اپنی تہذیب وثقافت کا پتا نہیں۔ ابھی پچھلے دنوں یوم پاکستان پر یونیورسٹی کی سطح کے طالب علموں سے ایک ٹی وی چینل نے یوم پاکستان کے بارے میں سوالات کیے۔ اکثریت کو اس دن کی اہمیت کے بارے میںکچھ پتا نہیں تھا، اور پھر پوچھتے ہیں کہ اس ملک نے ہمیں کیا دیا ہے؟ ہمارے ہاں بنیادی تصور یہ ہے کہ اگر آپ کو انگریزی آتی ہے تو اچھی نوکری آسانی سے مل جائے گی۔ آپ کے لیے بیرون ملک اچھی ملازمت و رہائش کا حصول آسان ہوجائے گا۔ جب جنگ عظیم دوئم ختم ہوئی تو پورا یورپ تباہ ہوچکا تھا، بے روزگاری و طوائف الملوکی اپنے عروج پر تھی، اور امریکا کے حالات کہیں بہتر تھے جبکہ یورپ کی تعلیمی پالیسی کے تحت اپنی زبان کے ساتھ ساتھ دو اور زبانیں لازمی پڑھنی پڑتی تھیں۔ انگریزی ایک زبان کی حیثیت سے تقریباً پورے یورپ میں پڑھائی جاتی ہے لیکن کتنے لوگ اپنا ملک چھوڑ کر امریکا گئے۔ سب نے مل کر حالات کا مقابلہ کیا اور اپنی ذات پر ملک و قوم کو ترجیح دی، اور آج ترقی یافتہ کہلاتے ہیں۔ آج بھی یورپ میں حالت یہ ہے کہ انگریزی زبان آنے کے باوجود اپنے ملک میں ہرکوئی انگریزی بولنا سخت معیوب سمجھتا ہے، یعنی ایک جرمن اگر جرمنی میں موجود ہو تو صرف جرمن زبان میں بات کرے گا، فرنچ ہو تو فرانسیسی بولے گا۔ وہ انگریزی صرف بیرون ملک سفر میں سہولت کے لیے سیکھتے ہیں۔ انگلینڈ میں تو صورت حال یہ ہے کہ ان کا اپنا علاقہ ہے ناردرن آئی لینڈ… وہاں انگریزی سے نفرت کی حد تک پرہیز کرتے ہیں۔ بلاشبہ بین الاقوامی زبان سیکھنے کے فوائد ہیں لیکن اس کو مادری زبان پر فوقیت نہیں دی جانی چاہیے۔ دنیا میں ہر ملک اپنی زبان و ثقافت کا ہر ممکن تحفظ کرتا ہے اور اس کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار رہتا ہے۔ چین کی مثال سامنے ہے۔ وہ اپنی ثقافت کے تحفظ کے لیے انٹرنیٹ تک پر پابندی لگانے سے گریز نہیں کرتا۔ اس حوالے سے ایران کی پالیسی بھی یہی ہے، اور ان دونوں ممالک نے بھی اپنی مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بناکر ترقی کا سفر طے کیا۔ ہمارے دانش ور حضرات ہمیں ڈراتے ہیں کہ اگر آپ نے انگریزی میں تعلیم حاصل کرنا چھوڑدی تو اعلیٰ تعلیم کے دروازے آپ پر بند ہوجائیں گے۔ لیکن کوئی یہ بات جرمنوں سے نہیں کہتا، فرانسیسیوں سے نہیں کہتا، سویڈن کے شہریوں سے نہیں کہتا۔ ان ممالک میں پی ایچ ڈی تک اپنی مادری زبان میں کروائی جارہی ہے اور وہ اپنی زبان میں تحقیق کرکے نوبل انعام تک حاصل کررہے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ایران، جہاں مادری زبان میں تعلیم دی جاتی ہے، وہاں سے لوگ نوبل انعام کے لیے نامزد ہورہے ہیں۔ ہمارے ہاں سے کتنے لوگ آج تک نامزد ہوئے؟ آج ہمارے ملک میں یہ عجیب مذاق بھی ہورہا ہے کہ استاد لیکچر اردو میں دیتے ہیں اور امتحان انگریزی میں لیتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment